منی لانڈرنگ کیس، زرداری‘فریال تالپور کی ضمانت میں5مارچ تک توسیع

پاکستان

میگا منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری، فریال تالپور اور دیگر کی ضمانت میں 5 مارچ تک توسیع کردی گئی ۔جمعرات کو کراچی کی بینکنگ کورٹ میں میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی، عبوری ضمانت پر رہا آصف زرداری اورفریال تالپور عدالت پہنچے جب کہ گرفتار ملزمان انور مجید ، عبدالغنی مجید ، حسین لوائی اور طحہ رضا کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ انور مجید کے 3 بیٹے نمر مجید، ذوالقرنین اور علی مجید سمیت 11ملزمان کمرہ عدالت میں موجود تھے۔سماعت شروع ہوئی تو فاضل جج نے تفتیشی افسر محمد علی ابڑو سے استفسار کیا کہ کیس میں کیا پیش رفت ہوئی جس پر ان کا کہنا تھا سپریم کورٹ کی ہدایت پر کیس کا ریکارڈ نیب کو منتقل کررہے ہیں۔عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ آپ جو بھی کہہ رہے ہیں وہ لکھ کردیں جس پر تفتیشی افسر نے کہا جی میں ابھی لکھ کر دے دیتا ہوں۔پیشی کے دوران ایف آئی اے نے انٹر پول کی مدد سے گرفتار کئے گئے ملزم اسلم مسعود کو پیش نہ کرنے کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرادی، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے اسلم مسعود کو پیش نہ کرنے کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرادی ہے ۔ پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اسلم مسعود کا پنجاب سے 5 دن کا راہداری ریمانڈ حاصل کیا گیا تھا تاہم وہ بیمار ہیں اور ڈاکٹر نے سفر کرنے سے منع کیا ہے۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا رپورٹ کے مطابق ملزم کی طبی حالت ایسی نہیں کہ اسے کراچی لایا جا سکے، صحت یابی کے بعد اسے عدالت میں پیش کردیا جائے گا۔نیب پراسیکیوٹر نے کیس اسلام آباد منتقل کرنے کے حق میں موقف اختیار کیا کہ چیئرمین نیب نے کیس اسلام آباد منتقل کرنے کی درخواست پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس لئے ملزمان کی ضمانتوں کی درخواستیں نہ سنی جائیں۔ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ لیا جائے، جس کے مطابق ملزمان کی ضمانتیں سننے کی گنجائش نہیں رہتی۔آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے موکلان کی عبوری ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست کی اور موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے نیب ریفرنسز اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے میں بینکنگ کورٹ کیس کا کوئی ذکر نہیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قانون ملزمان کی ضمانتیں سننے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، ایف آئی اے اور نیب سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کررہے ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست نہیں سنی تو ہم کیسے سن سکتے ہیں، جس پر انور مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عبوری چالان کے بعد حتمی چالان تاحال نہیں پیش کیا جاسکا۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اگر کل مقدمہ منتقل کرنے کی درخواست دائر ہوتی ہے تو اس پر بھی نوٹس جاری ہوں گے، ملزمان کو حتمی چالان کے بغیر کیسے غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے۔وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہیں سماعت سے نہیں روکا ہے، عبد الغنی مجید کی سرجری ہونی ہے جبکہ انہیں سرجری کے لیے نہیں بھیجا جا رہا۔اس دوران ملیر جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور ڈاکٹرز بھی عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ پہلے بھیجتے رہے ہیں تو اس دوران سرجری کیوں نہیں ہوئی، جس پر ڈاکٹر نے عدالت کو بتایا کہ عبد الغنی مجید کو سرجری کی ضرورت ہے، پہلے کنزرویٹو ٹریٹمنٹ ہورہا تھا جو فیل ہو گیا ہے۔اس موقع پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کو بتائیں کہ پہلے سرجری کیوں نہیں کی کس نے منع کیا تھا؟بعد ازاں عدالت نے عبد الغنی مجید کو طبی سہولیات فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کی درخواست ضمانت سننے کا کوئی جواز نہیں ہے، جس پر ملزمان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے کہا کہ ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے کہ حتمی چالان پیش کرے۔عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ کو بتانا ہوگا کیس میں کیا پیش رفت ہو رہی ہے، ایف آئی اے کو جو کہنا ہے تحریری طور پر جمع کرائے، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ کافی پیش رفت ہوئی ہے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر کیس کا ریکارڈ نیب کو منتقل کررہے ہیں۔جس پر عدالت نے تفتیشی افسر محمد علی ابڑو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو بھی کہے رہے ہیں وہ لکھ کردیں، تفتیشی افسر نے کہا کہ ‘جی میں ابھی لکھ کر دے دیتا ہوں’۔فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہیں نہیں کہا کہ نیب میں ریفرنس فائل کیا جائے بلکہ عدالت عظمی نے مزید تفتیش کا کہا ہے۔جس پر عدالت نے پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حتمی چالان پیش کریں یا پھر مقدمہ منتقل کرنے کی درخواست دیں، جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ریکارڈ منتقل ہورہا ہے، نیب حکام کے ساتھ گفتگو بھی جاری ہے۔۔اس موقع پر تفتیشی افسر نے کہا ہر سماعت پر حتمی چالان جمع کرانے کی مہلت کی درخواست دیتا رہا ہوں جس پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا صرف درخواست دینا کافی نہیں، جواز بھی دینا ہوتا ہے۔ عدالت نے انور مجید اور اے جی مجید کی درخواستِ ضمانت کی سماعت 20 فروری تک ملتوی کردی جب کہ آصف زرداری، فریال تالپور اور دیگر کی ضمانت میں 5 مارچ تک توسیع کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی ۔آصف زرداری اور فریال تالپور کی عدالت میں پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے ۔اس موقع پر کارکنان کی بڑی تعداد بھی عدالت کے باہر موجود تھی جو نعرے لگاتے رہے اور آصف زرداری وکٹری کا نشان بنا کر اور ہاتھ ہلا کر جواب دیتے رہے ۔یاد رہے کہ اسلم مسعود کو چند روز قبل ہی سعودی عرب سے پاکستان لایا گیا ہے جسے بیرون ملک رقم منتقل کرنے کا اہم کردار کہا جارہا ہے۔واضح رہے کہ مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکانٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاو¿نٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دبا کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکانٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکانٹس ہیں۔ان 29 اکاو¿نٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاو¿نٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔تحقیقات میں ابتدا میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکانٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکانٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکانٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکانٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکانٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکانٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے