سی ٹی ڈی نے ذیشان کو مارنے کے بعد کسی سے فون پر بات کی‘ پھر ابو کو مارا،عمیر کا جے آئی ٹی کو بیان

پاکستان

سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے زخمی بیٹے اور واقعے کے عینی شاہد عمیر نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ معصوم عمیر نے جے آئی ٹی کو دیئے جانے والے بیان میں کہا ہے کہ اہلکاروں نے تین بار ان کی گاڑی پر فائرنگ کی، یہ جھوٹ ہے کہ ہماری گاڑی کے اندر سے یا باہر سے کسی موٹر سائیکل سے فائرنگ ہوئی۔ننھے عمیر اور موقع کے عینی شاہد امیر نے جے آئی ٹی کو بیانات قلم بند کرائے۔ جے آئی ٹی کو اپنے بیان میں عمیر نے بتایا پولیس کی 2 گاڑیاں رکیں، نقاب پوش اہلکاروں نے فائرنگ کر کے ذیشان کو مار دیا، ذیشان کو مارنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے فائرنگ روک کر فون پر بات کی تو والد نے زندگیوں کےلئے ان کی منتیں کیں اور کہا جو چاہے لے لو لیکن ہمیں نہ مارو، موبائل فون پر بات کرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ننھے عمیر کے بیان کے مطابق فائرنگ کے دوران پاپا نے مرنے سے پہلے منیبہ کو اور ماما نے مجھے اور ہادیہ کو اپنے گھٹنوں میں چھپا لیا، پولیس اہلکاروں نے مجھے اور دونوں بہنوں کو نکال کر دوبارہ گاڑی پر فائرنگ کی۔ بعد میں اہلکاروں نے ہم بہن بھائیوں کو گاڑی سے نکالا اور ویرانے میں پھینک دیا۔عمیر نے جے آئی ٹی کو بتایا وہ اور منیبہ گولی لگنے کی وجہ سے درد سے کراہتے رہے، ایک انکل آئے انہوں نے پٹرول پمپ پر چھوڑا، پولیس والے دوبارہ آئے اور ہسپتال چھوڑ کر چلے گئے۔ ننھے عمیر نے پولیس کے بیان کو چھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا گاڑی کے اندر سے یا پھر موٹر سائیکل سے فائرنگ نہیں ہوئی، یہ بھی جھوٹ ہے گاڑی میں سے کوئی دہشت گردی کا سامان برآمد نہیں ہوا، فائرنگ کا حکم دینے والے موقع پر موجود اہلکاروں سے رابطے میں تھے۔ تحریری بیان کے مطابق مقتول خلیل کے 12 سالہ زخمی بیٹے عمیر نے بتایا کہ ‘وہ اپنی والدہ نبیلہ، والد خلیل، بڑی بہن اریبہ اور چھوٹی بہنوں منیبہ اور ہادیہ کے ساتھ صبح 8 بجے گھر سے نکلے، تاہم گاڑی جب قادر آباد پہنچی تو پیچھے سے کسی نے فائر کیا، جس سے گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرا کر رک گئی’۔عمیر کے مطابق ‘پولیس کے دو ڈالے تیزی سے گاڑی کے پاس آکر رکے اور نقاب پوش اہلکاروں نے فائرنگ کرکے سب سے پہلے ذیشان انکل کو مارا، جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے فائرنگ روک دی اور فون پر بات شروع کر دی’۔واقعے کے عینی شاید بچے نے بتایا، ‘ابو نے پولیس والوں سے کہا کہ جو چاہے لے لو، لیکن ہمیں نہ مارو، معاف کر دو، لیکن فون بند ہونے کے بعد اہلکار نے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور انھوں نے دوبارہ فائرنگ شروع کر دی، جس سے ابو، ماما اور بہن جاں بحق ہو گئی۔اس طرح عمیر کا بیان ساہیوال واقعے کے بعد گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں کے بیان سے متصادم ہے، جنہوں نے دورانِ تفتیش اس بات سے انکار کردیا تھا کہ گاڑی پر فائرنگ ان کی جانب سے کی گئی۔سی ٹی ڈی کے گرفتار اہلکاروں صفدر، رمضان، سیف اللہ اور حسنین نے دوران تفتیش کے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ گاڑی میں سوار افراد موٹرسائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ذرائع کے مطابق جب جے آئی ٹی نے ملزمان سے سوال کیا کہ گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ جس پر ملزمان نے فائرنگ میں پہل کرنے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ‘ہمیں کسی نے حکم نہیں دیا تھا، ہم نے صرف جوابی فائرنگ کی تھی’۔گذشتہ ماہ 19 جنوری کی سہہ پہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ایک عام شہری خلیل، اس کی اہلیہ اور 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعوی کیا گیا۔واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا، دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جس کی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے