فلسطین کے حامی طلبا کیخلاف کارروائی نہ کرنے کے معاملے پر تنقید، ہارورڈ کی صدر مستعفی

دنیا

امریکا کی معروف یونیورسٹی ہارورڈ کی صدر کلاڈین گے صیہونی مخالفت کے بارے میں اپنے بیانات اور ادبی سرقہ کے الزامات پر شدید تنقید اور دباؤ کے سامنے بے بس ہو کر آخرکار مستعفی ہوگئی ہیں۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد سے کلاڈین پر مستعفی ہونے کیلئے شدید دباؤ تھا، اُنہوں نے اپنے استعفیٰ میں کہا کہ عہدے سے ہٹ جانا ہی ہارورڈ یونیورسٹی کے فائدے میں ہے کیونکہ نفرت انگیزی کا مقابلہ کرنے اور علمی معیار کو بالاتر رکھنے کے ان کے عزم پر شک کرنا ان کیلئے تکلیف دہ بات ہے۔

یاد رہے کہ دسمبر 2023 میں فلسطین کے حامی طالب علموں کیخلاف کارروائی نہ کرنے کے معاملے پر امریکی یونیورسٹی بورڈ کےادارے کی سربراہ کے حق میں ڈٹ جانے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی نے ڈاکٹر کلاڈین کو عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
کانگریس کمیٹی کے سامنے پیشی پر ہارورڈ کی صدر کو یہود دشمنی پر سخت مؤقف اختیار نہ کرنے کے الزام کا سامنا ہوا تھا، ہارورڈ یونیورسٹی پردباؤ تھا کہ وہ ادارے کی سربراہ ڈاکٹر کلاڈین سے استعفیٰ طلب کرے۔

خیال رہے کہ یہود دشمنی پر سخت مؤقف اختیار نہ کرنے والی یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی صدر ایلزبتھ میگل کو بھی استعفی دینا پڑا تھا، جس کے بعد یونیورسٹی کے میڈیکل اسکول کے ڈین ڈاکٹر لیری جیمسن کو عبوری سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔

امریکی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر ایلزبتھ میگل سے پوچھا گیا کہ وہ صیہونیت مخالف اوریہودیوں کی نسل کشی کے مطالبے کو یونیورسٹی کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی اور ایسا کرنے والے طلبا کے خلاف انضباطی کارروائی کو درست سمجھتی ہیں یا نہیں؟

ایلزبتھ میگل کے جواب سے پارلیمنٹرینز خوش نہ ہوئے اور نیویارک کی ریپبلکن قانون ساز رکن ایلس سٹیفنک ان سے بار بار یہی سوال پوچھتی رہی جس پر ایلزبتھ نے ’ہاں‘ کہنے کے بجائے اپنا جواب دوہراتے ہوئے کہا کہ اس کا تعین بیان کے پس منظر کے تحت کیا جائے گا، ہم آزادی اظہار پر قدغن کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتے۔

ایلزبتھ میگل نے کہا کہ ایسا بیان کیمپس قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے یا نہیں اس کا انحصار بیان کے سیاق و سباق پر ہے۔ جس کے بعد لازمی طور پر دیکھا جائے گا کہ آیا وہ بیان انفرادی طور پر کسی کو ٹارگٹ کرنے کیلئے ہے؟

انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کوئی بیان عمل میں بھی تبدیل ہو جائے تب بھی اسے ہراسمنٹ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن نسل کشی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے