سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی اٹھالی گئی جسے عالمی پزیرائی ملی تاہم وہاں خواتین پر اب بھی پابندیاں موجود ہیں جن میںمرد کی سرپرستی کا نظام شامل ہے۔
اس نظام کے تحت سعودی عرب میں کسی عورت سے متعلق اہم فیصلے کرنے کا اختیار اس کے والد، بھائی، خاوند یا بیٹے کے پاس ہے اور اگر وہ اس کی نا فرمانی کرتی ہے تو اسے گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
چند روز قبل ایک سعودی خاتون نے بینکاک کے ایک ہوٹل کے کمرے میں خود کو بند کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر انہیں واپس سعودی عرب، ان کے گھر بھیجا گیا تو انہیں قید کیے جانے کا خطرہ ہے۔
اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ 2018 میں سماجی کارکن ثمر بداوی اپنا آبائی گھر چھوڑ کر ایک پناہ گاہ منتقل ہو گئی تھیں اور اس کی وجہ انہوں نے اپنے والد کی طرف سے اُن پر ہونے والا مبینہ جسمانی تشدد بتایا تھا جس کے بعد انہوںنے اپنے والد کی سرپرستی ختم کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی شروع کی۔
بداوی کا کہنا تھا کہ مبینہ جوابی کارروائی کے طور پر اُن کے والد نے اُن کے خلاف ‘ نافرمان‘ ہونے کا دعویٰ دائر کر دیا۔
واضح رہے سعودی عرب میںسرکاری اسکولوں میں خواتین کے کھیلوں اور خواتین کے فٹبال سٹیڈیم جا کر میچ دیکھنے پر عائد پابندی بھی ختم کی گئی ہے تاہم اقوام متحدہ کے ماہرین نے فروری 2018 میں ملک میں خواتین سے امتیازی سلوک کی روک تھام سے متعلق مخصوص قانون اپنانے اور قانونی تعریف کی عدم موجودگی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
سعودی عرب میں خواتین کی معاشرے اور معیشت میں شرکت میں بڑی رکاوٹ مرد کی سرپرستی کا نظام ہے۔